8 جولائی 2025 - 01:35
مآخذ: ارنا
مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے لئے ایک شرط ہے اور وہ گفتگو کے عمل  پر اعتماد ہے، صدر پزشکیان

صدر اسلامی جمہوریہ ایران نے کہا ہے کہ "ہمیں مذاکرات میں کوئی مشکل نہیں ہے لیکن صہیونی ریاست نے ہمارے ملک کے خلاف جارحیت کرکے حالات کو بحران سے دوچار کر دیا ہے"۔

بین الاقوامی اہل بیت(ع) اسمبلی ـ ابنا ـ کے مطابق صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے امریکی نامہ نگار ٹا کر کارلسن کے ساتھ بات چیت میں  کہا ہے کہ موجودہ بحران سے گذر کر مذاکرات دوبارہ شروع کئے جاسکتے ہیں لیکن اس کے لئے ایک شرط ہے اور وہ گفتگو کے پراسیس پر اعتماد ہے۔

انھوں نے کہا کہ مذاکرات کے دوران صہیونی ریاست کو دوبارہ حملہ کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہئے۔

صدر ایران نے اس انٹرویو میں جوہری  توانائی کی بین الاقوامی ایجنسی کے ساتھ تعاون، صہیونی ریاست کی حالیہ جارحیت، اور امریکہ کے ساتھ مذآکرات دوبارہ شروع کرنے کے حوالے سے ایران کے موقف کی وضاحت کی۔ ان کی گفتگو کے اہم ترین نکات مندرجہ ذیل ہیں:

- ہم نے جنگ شروع نہیں کی اور نہ ہی اس کو جاری رکھنا چاہتے ہیں۔

- نیتن یاہو نے 1992 سے عالمی برادری اور امریکی صدور کو ذہن نشین کرانے کی کوشش کی ہے کہ ایران ایٹمی اسلحہ بنانا چاہتا ہے۔

- ہم کبھی بھی ایٹمی اسلحہ نہیں بنانا چاہتے تھے، نہ بنا رہے ہیں اور نہ بنائیں گے۔ اس حوالے سے رہبر انقلاب اسلامی کا حکم اور فتوی موجود ہے۔

- آئی اے ای اے کے ساتھ ہمارے مکمل تعاون میں ہماری صداقت پرکھی گئی لیکن اس ادارے کا طرزعمل اس پراسیس کے معطل ہو جانے کا سبب بنا۔

- ہم مذاکرات کی میز پر تھے اور  امریکی صدر نے ہمیں صلح کی دعوت دی تھی، اس میٹنگ ميں ہم سے کہا گیا کہ جب تک ہم [امریکی] اجازت نہ دیں گے، اسرائیل حملہ نہیں کرے گا، لیکن مذاکرات کے چھٹے دور میں، عملا مذاکرات کی میز پر بمباری کرکے سفارت کاری کو برباد کیا گیا۔

- ہم صداقت پرکھنے کے عمل سے کبھی نہیں بھاگے، اب بھی انسپکشن کے لئے تیارہیں لیکن ہماری ایٹمی تنصیبات پر امریکی حملے کے بعد بہت سے وسائل اور مراکز تباہ ہوگئے اور وہاں تک رسائی آسانی سے ممکن نہیں ہے۔ 

- ایران میں انجام پانے والی تفتیش کے عمل سے حاصل ہونے والی معلومات سے غلط فائدہ اٹھاکر صہیونی ریاست کی جارحیت نے آئی اے ای اے کے تعلق سے ہمارے اندرشکوک و شبہات اور بدگمانیاں پیدا کردی ہیں۔ 

- جب صہیونی ریاست نے ایجنسی کی رپورٹ کو بہانہ بناکر ہماری ایٹمی تنصیبات پر جارحیت کی اور ایجنسی نے ہماری تنصیبات پر اس کھلی جارحیت کی مذمت تک نہ کی جو خود اس کی نگرانی میں کام کرہی تھیں تو اس ادارے کے تئيں ہماری بدگمانی بڑھ گئی۔

 - یہ نتین یاہو ہے جس نے علاقے میں بے چینی اور بدامنی کو ہوا دی ہے اور گفتگو کے پراسیس میں خلل ڈال دیا ہے۔

- ہم امن چاہتے ہیں اور ہمارا یقین ہے کہ اس چھوٹی سی دنیا میں انسان امن و سکون کے ساتھ زندگی گذاریں لیکن ہم پر جارحیت کی گئی۔

- میں سمجھتا ہوں کہ امریکی صدر اس علاقے کو امن و سلامتی کی طرف بھی لے جاسکتے ہیں اور اسے کبھی نہ ختم ہونے والی جنگ کے حوالے بھی کرسکتے ہیں۔

- صہیونی ریاست نے ہمارے ملک اور اس علاقے میں جو المناک جرائم ارتکاب کیا ہے، ہمارے اعلی فوجی افسران کو ان کے گھروں میں اہل خانہ کے ساتھ  دہشت گردانہ حملے کا نشانہ بناکر قتل کردیا ہے، ہمارے سائنسدانوں کو ان کے بیوی بچوں کے ساتھ  شہید کردیا ہے، بمباری کرکے بے گناہ عوام، عورتوں اور بچوں کا قتل عام کیا ہے اور صورت حال کو بحران سے دوچار کر دیا ہے۔

- ہم میٹنگ میں تھے اوراپنے پروگرام کا جائزہ لے رہے تھے کہ صہیونی ریاست نے اپنے جاسوسوں سے ملنے والی اطلاعات کی بنیاد پر جس علاقے میں ہم تھے، اس پر بمباری کردی۔ لیکن ہم بھی اپنے ملک  کی سربلندی اور خودمختاری کی راہ میں  موت اور شہادت سے نہیں ڈرتے۔

- ہمارے عوام نے صہیونی ریاست کی مسلط کردہ جنگ کے مقابلے میں بھر پور اتحاد و یک جہتی کا مظاہرہ کیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha